سکردو /بلتستان
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بلتستان
| |
Baltistan
| |
عمومی معلومات
| |
ملک
| |
گلگت بلتستان
| |
34.58 درجے شمال، 76.32 درجے مشرق
| |
10108
| |
322000 بمطابق 2002ء
| |
معیاری عالمی وقت +5
| |
![]()
بلتستان
پاکستان میں بلتستان کا مقام
|
بلتستان (بلتی زبان میں' بلتیول') ایک قدیم ریاست ہے جو کھبی بلتی یل تبت خورد اور قبل مسیح میںپلو لو کے ناموں سے معروف تھی آج کل پاکستان کے صوبہ گلگت و بلتستان میں شامل ہے اگرچہ اس کے کچھ حصہ پر بھارت نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ بلتستان میں دنیا کے تیس سے زیادہ اونچے ترین پہاڑ واقع ہیں جن میں کے۔ٹو شامل ہے۔ یہں قطبین کے بعد گلیشیئر کا سب سے بڑا زخیرہ بھی یہی موجود ہے جن میں سیاچن گلیشیر بلتورو گلیشیر اوربیافو گلیشیر مشہور ہیں۔ بلتستان کی سرحدیں چیناور بھارت سے ملتی ہیں۔ بلتستان پر 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ حکمرانوں نے قبضہ کیا تھا۔ انگریزوں نے جو کشمیر ڈوگروں کو بیچا تھا اس میں گلگت و بلتستان شامل نہیں تھا مگر گلاب رائے کے صاحبزادے رنبیر سنگھ بادشاہ بنے تو ان کی افواج نے گلگت اور بلتستان کو فتح کرکے کشمیر کا حصہ بنا لیا۔[1] اس سے پہلے یہ ایک آزاد ریاست تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت بلتستان کے لوگوں نے اپنی جنگِ آزادی لڑی اور1948ء میں خود پاکستان میں شامل ہوئے ۔ اگرچہ بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین مسئلہ کشمیر کے مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک نہیں ہوا اور نہ ہی انہیں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن ستمبر 2009ء میں پاکستان کے صدر نے بلتستان و گلگت کو خودمختاری کے بل پر دستخط کر دیے جس کے بعد یہ علاقہ کشمیر کی طرح ایک پارلیمنٹ رکھ سکے گا۔ بلتستان کا تقریباً تمام علاقہ پہاڑی ہے جس کی اوسط اونچائی گیارہ ہزار فٹ ہے۔ لداخ بھی قدیم تاریخ سے بلتستان کا حصہ رہا ہے جو آج کل بھارت، چین اور پاکستان میں تقسیم ہو چکا ہے۔ گلگت و ہنزہ بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں بلتستان سے ملحق رہے ہیں۔ بلتستان کی غالب اکثریت شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ ایک بڑی تعداد میں نوربخشی مسلمان بھی آباد ہیں۔ سکردو بلتستان کا سب سے بڑا شہر اور دارالخلافہ ہے۔
پاکستان کے انتہائی شمال میں قراقرم و ہمالیہ کے دامن میں 10 ہزار 118 مربع میل پھیلا ہوا پہاڑی علاقہ بلتستان کہلاتا ہے جوبلتستان سکردو، روندو، شگر، کھرمنگ، گلتری اور خپلوکی وادیوں پر مشتمل ہے۔انتظامی لحاظ سے یہ علاقہ دو اضلاع سکردو اورضلع گانچھے میں منقسم ہے ۔بلتستان کے جنوب میں کشمیر ، مشرق میں لداخ ، کرگل مغرب میں گلگت اور دیامر جبکہ شمال میں کوہ قراقرم بلتستان کو چینی صوبہ سنکیانگ سے جدا کرتے ہیں ۔
میں ایک چٹان پر منقش بدھ دور کی یادگاربلتستان کی قدیم تاریخ کے بارے میں کوئ دستاویزی شہادت موجود نہی۔ البتہ لوک روایات اور داستانوں پتا چلتا ہے کہ قبل مسیح کے دور میں علقہ ہاۓ تبت پر ایک کیسر نامی باشاہ کی حکومت تھی ۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ کیسر دیوتاوں کی اولاد ہے اور نہیں دنیا میں غربت ظلم وبربریت سے نجات دلانے آیا ہے۔اس دور میں لوگبون مت کے پیروکا تھے
تاریخی حوالوں سے 200 سال قبل مسیح کے دوران بدھ مت کے آثار ملتے ہیں بعد ازاں بون مت کے اختلاظ سے لاما ازم وجود میں آیا 5ءصدی میں بلتستان پر پلو لا شاہی حکمرانوں کا تزکرہ ملتا ہے ۔900ء میں بلتستان تبت کا ایک صوبہ تھالیکن جب تبت میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو بلتستان تبتی سلطنت سے الگ ہوگیا۔
تاریخی حوالوں سے 200 سال قبل مسیح کے دوران بدھ مت کے آثار ملتے ہیں بعد ازاں بون مت کے اختلاظ سے لاما ازم وجود میں آیا 5ءصدی میں بلتستان پر پلو لا شاہی حکمرانوں کا تزکرہ ملتا ہے ۔900ء میں بلتستان تبت کا ایک صوبہ تھالیکن جب تبت میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو بلتستان تبتی سلطنت سے الگ ہوگیا۔
1. مقپون خاندان
بلتی بادشاہ شیر شاہ کےبیٹےعلی شیر خان انچن(1540ء تا 1568ء) کےدور مقپون خاندان کاعروج کےدورکاآغاز ہو تا ہے۔علی شیر خان نے جو بعد میں انچن یعنی طاقتور کے نام سے مشہور ہوا پہلے کوتہ جس پر لداخ کے راجہ کی حکومت تھی قبضہ کیا۔اسکے بعد انچن نے لداخیوں کو شکست دیکر کھرمنگ پر قبضہ کیا۔ اسی طرح انچن نے یکے بعد دیگرے بلتستان اور لداخ[2] پر مکمل حکومت قائم کر لی ۔
اسی اثناءمیں ریاست کشمیرکامغل سلطنت سےالحاق ہوگیا۔توانچن نےاپنی بیٹی کارشتہ شہزادہ سلیم کےساتھ کردیا۔
انچن نے اسکے بعد مغرب میں اپنی حکومت کو وسعت دی اوراستور،گلگت اورچترال کو فتح کر لیا۔ انچن کی وفات پے اسکے بیٹے آدم خان اور عبدال خان میں جھگڑا ہوگیا اسکے بعد مقپون خاندان کا زوال ہوگیا۔طویل جنگ و جدل کے بعد آخر سلطنت آدم خان کو ملی۔
اسی اثناءمیں ریاست کشمیرکامغل سلطنت سےالحاق ہوگیا۔توانچن نےاپنی بیٹی کارشتہ شہزادہ سلیم کےساتھ کردیا۔
انچن نے اسکے بعد مغرب میں اپنی حکومت کو وسعت دی اوراستور،گلگت اورچترال کو فتح کر لیا۔ انچن کی وفات پے اسکے بیٹے آدم خان اور عبدال خان میں جھگڑا ہوگیا اسکے بعد مقپون خاندان کا زوال ہوگیا۔طویل جنگ و جدل کے بعد آخر سلطنت آدم خان کو ملی۔
1. ڈوگرہ راج
1840 ء میں زور آور سنگھ نے بلتستان پر حملہ کرلیا ۔ اسکے ساتھ ہی بلتی ریاست کا خاتمہ ہوگیا۔لیکن 12 دسمبر 1841ء کو زور آور سنگھ قتل ہوگیا تو احمد شاہ نے بلتسان میں بغاوت کرادی۔ مگر آزادی کی یہ جدوجہد کامیاب نہ ہوسکی اور بلتستان واپس 1842ء میں ڈوگرہ حکومت کے قبضے میں چلی گئی۔بلتستان میں ڈوگرہ حکومت 1948 تک رہی۔ڈوگرہ حکومت کی 108 سالہ تاریخ میں بلتی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گۓ۔بلتیوں نے دڈوگرہ حکومت کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔
]] ہمدان ؒ یہاں تشریف لاۓ اور اسلام کی تبلیغ کی۔آپ نے خپلو میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جسکا نام چقچن ہے جو آج بھی بڑی شان و شوکت سے موجود ہے۔اسکے بعدشاہ سید محمد نوربخش قہستانیہیاں تبلیغ اسلام کیلۓ آۓ پھر 1570ء میں سید ناصر طوسی اور سید علی طوسی دونوں بھائییارقندسے سلتورو کے راستے خپلو پہنچے اور اسلام کی تبلیغ کی۔ان دونوں بزرگوں کے بعد دو اور نوربخشی بزرگ سید میر مختار اخیار اور سید میر یحیٰبھی چینی ترکستان سے شگر پہنچے میر مختاراخیار نے بعد میں کریس میں سکونت حاصل کی اور وہیں وفات پائ وہ نوربخشی سلسلے طریقت کے پیر بھی تھے ان کا مزار آج بھی کریس میں مرجع خلائق ہے ۔آج بلتستان کے تقریباَ تمام موسوی سادات اور نوربخشی سلسلے کے موجودہ پیر سید محمد شاہ نورانی انہی کے اولاد سے ہیں۔
”
|
بلتستان کاخطہ اپنےخوبصورت نظاروں، دلکش وادیوں، بُلند و بالا برفیلے پہاڑوں، روح فناکردینے والی گہری گھاٹیوں، ہزاروں سال قدیم انداز میں مقامی باشندوں کی بود و باش کی بدولت ملکی اورغیرملکی سیاحوں میں خاصا مقبول ہے
|
“
|
اسی سرزمین پر’ایورسٹ‘ کے بعد دنیا کی دوسری بُلند ترین چوٹی کے ٹو[3] واقع ہے۔ یہیں نانگا پربت کھڑا ہوا ہے جسے قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔انہی علاقوں میں قطبینکے بعد دنیا کے طویل ترین اور بڑے گلیشیر پائے جاتے ہیں جن میں پاکستان اور بھارت کے مابین متنازع سیاچن گلیشیر کے علاوہ ہسپر، بتورہ اور بلتورو قابلِ ذکر ہیں۔ یہیں دنیا کی آٹھ بُلند ترین چوٹیاں واقع ہیں جن میں کے ٹو8615میٹر، نانگاپربتاور راکا پوشی کے علاوہ رگشا بروم(8355میٹر)، براڈ پیک (8047 میٹر)اور مشابروم (7320میٹر)چوٹیاں بھی شامل ہیں جن کی بُلندی دو ہزار سے آٹھ ہزار میٹر کے درمیان ہے۔ جنہیں سر کرنے کے لیے ہر سال ہزاروں عیر ملکی کوہ پیما اور سیاح یہاں کا رُخ کرتے رہے ہیں۔نیزکچورہ جھیل،سدپارہ جھیل،دیوسائی نیشنل پارک،قلعہ کھر پوچو، قلعہ راجہ خپلو مشہور ہیں۔
14 اگست کو جب پاکستان وجود میں آیا تو گلگت میں راجہ خان اور کرنل مرزا حسن خان کی سرکردگی میں انقلاب آیاجسکو دیکھ کر بلتستان کے لوگوں نے بھی ناجائز ڈوگرہ ھکومت کے خلاف آواز بلند کی۔ چنانچہ گلگتیوں کی مدد سے بلتیوں نے 14 اگست 1948ء کو مکمل آزادی حاصل کی۔ نومبر 1948ء تک پوریگ تک کا سارا علاقہ آزاد کرا لیا گیا۔ لیکن 1971 میں بھارت نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔بلتستان کی آزادی کے فورا بعد بلتیوں نے پاکستان کے ساتھ اپنا الحاق کر لیا۔ 1972ء تک بلتستان کو پاکستان کی وفاقی حکومت کے زیر انتظام ایک ضلع کی حیثیت حاصل رہی۔1972ء میں پاکستان کےاس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے بلتستان کے دو اضلاعضلع گانچھے اور سکردو بنا دۓ گیۓ۔2009ءمیں پیپلز پاٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان کو صوبے کی حثیت دے دی۔
یہاں کی آبادی بلتی ہے اور بلتی زبان بولتے ہیں ۔بلتستان کے لوگ محنتی، سادہ، لوح، خوش اخلاق، جلد گھل مل جانے والے اور مزہبی قسم کے ہیں لیکن مزہبی شدت پسندی ان میں موجود نہی.
Thank you for sharing the details about Skardu Baltistan on your blog. Its really helpful and valuable information you are providing about the region.
ReplyDelete