قلعہ لاہور
آزاد دائرۃ المعارف،
ویکیپیڈیا سے
Fort and Shalamar Gardens in Lahore
|
|
قسم
|
ثقافتی
|
i, ii, iii
|
|
حوالہ
|
|
علاقہ**
|
|
تاریخِ شمولیت
|
|
شمولیت
|
|
خطرے سے دوچار
|
2000–تا حال
|
قلعہء لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیرمغل بادشاہ اکبر اعظم (1605-1556) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ [1] قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغکے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
قلعہء لاہور کی تعمیر کے حوالے سے مختلف مبہم
اورروایتی حکایات موجود ہیں۔ [2] تاہم
1959ء کی کھدائی کے دوران جو کہ محکمہء آثارِ قدیمہ نے دیوان عام کے
سامنے کی، جس میں محمود
غزنوی 1025ء کے دور کا سونے کا
سکہ ملا۔جو کہ باغیچہ کی زمین سے تقریبا 62 .7 میٹر گہرائی میں ملا۔ جبکہ پانچ
میٹر کی مزید کھدائی سے ملنے والے قوی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر آبادی
محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً 1021ء میں موجود تھی۔ [3] مزید
برآں یکہ اس قلعہء کی نشانیاں شہاب
الدین غوری کے دور سے بھی ملتی ہیں جب
اُس نے 1180ء تا 1186ء لاہور پر حملوں کئے تھے۔
1864 میں لی گئی قلعہ
لاہور کی ایک تصویر
یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعہء
لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن
ہوچکی ہیں، شاید ہمیشہ کے لئے، تاہم محکمہء آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے
والے اشارات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1025ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا، جن کی
تفصیل درج ذیل ہے:
·
1421ء - سلطان مبارک شاہ
سید نے مٹی سے دوبارہ تعمیرکروایا۔
·
1432ء - قلعے پر کابل کے
شیخ علی کا قبضہ ہوگیا اور اُس نے قلعے کو شیخا کھوکھر کے تسلط کے دوران پہنچنے
والے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی مرمت کروائی۔
·
1566ء - مغل فرمانروا اکبر
نے پکی اینٹوں کی کاریگری سے، اس کی پرانی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کروائی اور
شاید اسی وقت اس کو دریائے راوی کی
سمت وسعت دی تقریباً 1849ء میں، جب راوی قلعہء لاہور کی شمالی دیوار کے ساتھ بہتا
تھا۔ اکبر نے “دولت کدہء خاص و عام“ بھی تعمیر کروایا جوکہ “جھروکہء درشن“ کے نام
سے مشہور ہے اور اس کے علاوہ مسجد دروازہ وغیرہ بھی بنوایا۔
·
1645ء - شاہجہاں نے “دیوان
خاص“ تعمیر کروایا۔
·
1799ء یا 1839ء - اس دوران
شمالی فصیل جوکہ کھائی کے ساتھ واقع ہے، سنگ مرمر کا “ہتھ ڈیرہ“، “حویلی مائی
جنداں“، “بارہ دری راجہ دھیاں سنگھ“ کی تعمیر رنجیت
سنگھ نے کرائی، ایک سکھ حکمراں
جوکہ 1799ء تا 1839ء تک حاکم رہا۔
·
1927ء - قلعے کی جنوبی
فصیل کو منہدم کرکے، اس کی مضبوط قلعے کی حیثیت کو ختم کرکے اسے برطانیہ نے محکمہء
آثارِ قدیمہ کو سونپ دیا۔
کھا جاتا ھے کے
قلعے کو سلطان مھمود غزنوی کے سپاھی ملک ایاز نے تعمیر کروایا
·
مغلیہ
سلطنت میں کابل، ملتان اور کشمیر کے
فرمائرواؤں کے حملے کے پیشِ نظر لاہور کی جغرافیائی اہمیت اس بات کی متقاضی تھی کہ
قلعہء لاہور کو پکی اینٹوں کی کاریگری کرکے ایک مضبوط قلعہ بنایا جائے۔[5] اس
کے تعمیری ڈھانچے میں فارسی رنگ چھلکتا ہے جوکہ مختلف شاہوں کی فتوحات کے ساتھ
ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا۔ [6] یہ
قلعہ واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہے پہلا حصہء منتظم، جو کہ تمام تر داخلی
راستوں سے بخوبی جُڑا ہوا ہے اور اس کے اندر تمام باغیچے اور شاہی حاضرین کے لئے
دیوان عام بھی شامل ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ نجی و خفیہ رہائشگاہوں پر مشتمل ہے جوکہ
شمالی سمت میں صحن اور دالانوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جن تک رسائی کے لئے “ہاتھی
دروازہ“ استعمال ہوتا تھا۔ اسی میں شیش محل بھی شامل ہے، وسیع آرام دہ کمرے اور
چھوٹے باغیچے بھی اس میں موجود ہیں۔ [7] بیرونی
حصے کی دیواریں نیلی فارسی کاشی کاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ اس کا اصل داخلی راستہ
“مریم زمانی مسجد“ کے سامنے ہے جبکہ بڑا عالمگیری دروازہ حضوری
باغ کی طرف کھلتا ہے، جہاں
عظیم الشان بادشاہی
مسجد بھی واقع ہے۔ [8]
1. ^ محمد طاہر(1997) اسلامی ثقافت کا تجزیاتی
جائزہ۔ انمول پبلیکیشنز. ISBN 8174884874
2. ^ جی جانسن، سی اے بیلے اور جے ایف رچرڈ
(1988) نئی کیمبرج تاریخ ِ انڈیا، ناشر جامعہ کیمبرج ISBN 0521400279
5. ^ قلعہء لاہور کی عمارت. آرک نیٹ ڈیجیٹل لائبریری.
6. ^ این اے چوہدری (1999) قلعہء لاہور- تاریخ
کا گواہ، ناشر سنگ میل ISBN 9693510402
7. ^ کیتھرین ای جی اصغر (1992) انڈیا میں
مغلیہ فن تعمیر، ناشرجامعہ کیمبرج ISBN 0521267285
8. ^ اے این خان (1997)پاکستان کے اسلامی
آثارِ قدیمہ کا مطالعہ، ناشر سنگ میل
·
No comments:
Post a Comment